فخر الدین اخونزادہ کی یہ کتاب کچھ دن پہلے ملی تھی۔ نام میں “اخونزادہ” کا دم چھلا دیکھ کر لگا کہ انہیں دین سے زیادہ اس نسبت پر فخر ہے اور کتاب میں بھی تعصب اور کسی طرف جھکاؤ کی جھلکیاں ہوں گی۔ یہ خدشہ بے جا نہ تھا۔ چترالی مصنفین کی لکھی تاریخ کی کتابوں میں قصیدہ خوانی ملتی ہے یا ہجو گوئی۔ مگر یہ اندیشہ ہائے دور دراز غلط ثابت ہوا۔ کتاب میں کسی قوم یا زبان کی طرف تعصب کی بو تک نہیں آئی۔
پڑھنے سے پہلے ایک اور احساس بھی دامن گیر تھا۔ ہمارے دیسی لکھاریوں میں ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کتابی حوالہ جات کو شانِ مصنف کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور سنی سنائی باتوں پر پورا مقدمہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ حوالہ بھی ایسے دیا جاتا ہے جیسے کوئی لوک داستان سنائی جا رہی ہے۔ یعنی دروغ بگردنِ راوی۔ میرے خیال میں اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اچھی طرح تحقیق کرکے جامع انداز میں لکھی گئی ہے۔ شارٹ کٹ نہیں مارا۔
تیسری خوبی جس کی طرف شروع میں بھی اشارہ ہوا ہے کہ کتاب سے معروضیت (objectivity) چھلکتی ہے۔ جس قوم اور زباں کی جو بھی حیثیت ہے، اس کو اپنے پرائمیری اور سیکنڈری ڈیٹا کو اکھٹا کرکے من و عن بیاں کر دیا گیا ہے۔ مصنف کی ذات کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ معروضیت ہمیں گوروں کی تاریخ نویسی میں ملتی ہے۔
چوتھی خوبی یہ کہ کتاب جامع ہے۔ غیر ضروری تفصیلات نہیں ہیں مگر تشنگی کم ہی محسوس ہوتی ہے۔ اپنے موضوع “چترال کی زبانیں: ماضی حال، مستقبل” کے ساتھ بھر پور انصاف کیا گیا ہے۔ کتاب پڑھ کر چترال میں بولی جانے والی 12 زبانوں کے بارے میں نہ صرف مکمل جانکاری ہوتی ہے بلکہ ان کا ماضی، حال اور مستقبل بھی نظر آتا ہے۔
یہ کہتے ہوئے ہمارے عالم فاضل ہونے پر حرف آتا ہے مگر کہہ دیتے ہیں کہ گھر سے چند کلو میٹر دور تین زبانوں کا ہمیں کچھ پتا نہ تھا اور یہ کتاب پڑھ کر پوری جانکاری ہوئی کہ ان زبانوں کی جڑیں کہاں ہیں، آج کس حال میں ہیں اور کل ان پر کیا گھنٹنا آنے والی ہے۔
پانچویں خوبی یہ کہ کتابت کی غلطیاں بہت کم ہیں۔ زبان سادہ اور سلیس ہے۔ ممتاز صاحب نے پروف ریڈنگ کی ہے تو ظاہر ہے اس میں زبان و بیاں کی غلطیوں کا امکان کم ہے۔ علاوہ ازیں پیپر اچھا، پرنٹنگ اینڈ کمپوزنگ خوب ہوئی ہے۔
اب اصلاح کے واسطے، چند ایک کمی بیشیوں کا تذکرہ ہو جائے تاکہ اگلے کسی ایڈیشن میں ان پر نظر ثانی ہو سکے۔
1۔ صفحہ نمبر 47 میں پشتوں ثقافت (میرے خیال میں پشتو ثقافت زیادہ موزون ہے) کے حوالے سے لکھا ہے کہ شیشی کوہ کے پشتونوں میں دشمنیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ اسلحہ بھی نہیں رکھتے۔
دشمن قدرے کم ہیں مگر اسلحہ ہر گھر میں نہیں تو ہر دوسرے گھر میں موجود ہے۔ اسی صفحے کے آخری جملے میں گرامر کی دو موٹی غلطیوں کی تصحیح بھی کی جائے۔
2۔ اسی طرح بہت سارے دیہات اور نسبی گروہوں کے نام غلط لکھے گئے ہیں۔ ان پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
3۔ صفحہ 51 سے لے کر 63 تک ایک بہت بڑی غلطی کا مسلسل احساس ہوا۔ شاید اس میں ہم بھی غلطاں ہوں۔ ہم نے اپنے تئیں تحقیق بھی کی اور اس کو پورے ایمان و یقین سے غلطی کے بجائے blunder مانا۔ اس باب کا عنوان “دمیلی” ہے۔ نہ صرف یہ کہ دمیل کے جغرافیے کو دمیل گول (جس کو پشتو میں گیڈ خوڑ کہا جاتا ہے) تک محدود کیا گیا ہے بلکہ ایک زبان “گوڈوجی” کو دمیلی کہا گیا ہے۔ دمیل کا حدود اربعہ میرکھنی سے تھوڑا سا نیچے ڈشتنگل نامی جگہ سے شروع ہوتا ہے اور ارندو سے تھوڑا سا اوپر تک جاتا ہے۔ اس کو ایک درے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی کئی زبانوں والے علاقے کو ایک خاص زبان کو مرکزی یا اکثریتی زبان کے روپ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے درے کی چھوٹی سی زبان ہے۔ بس۔
ہر چند کتاب میں گوڈوجی اور گیڈ کا ضمنی تذکرہ ہوا ہے کہ پشتو اسپیکنگ اس کو ان ناموں سے بھی یاد کرتے ہیں۔ تاہم اس باب میں گیڈ کو دمیل اور گڈوجی زباں کو دمیلی کے طور پر ڈسکس کیا گیا ہے۔
4۔ انگریزی میں indigenous کسی خاص جگہ کے اصلی یا دیسی باشندوں کو کہا جاتا ہے جو نسل در نسل آباد رہے ہیں۔ اس کے لیے اردو میں سودیشی، دیسی، اصل باشندہ وغیرہ کی اصطلاحات مستعمل ہیں۔ کھووار میں بومکی کہا جاتا ہے۔ کتاب میں جہاں بومکی لکھا گیا ہے، آگے بریکٹ میں indigenous لکھا ہے۔ اس میں دو عیب ہیں۔ ایک یہ کہ کتاب اردو میں ہے تو اس کا معنی بھی اردو میں ہو۔ دوسری غلطی جو مضحکہ خیز سی معلوم ہوتی ہے، یہ کہ اس کو بار بار اسی ایک دھن میں دھرایا گیا ہے۔ قاری اتنا نالائق تو نہیں ہو گا کہ ایک لفظ کو بار بار معنی کے ساتھ بھینجے میں گھسایا جائے۔ اس طرح کی کتابوں میں بومکی جیسے الفاظ کی تشریح یا معنی آخر میں glossary میں دیا جاتا ہے۔
5۔ صفحہ 78 میں لکھا ہے: “اب جبکہ کالاشہ کی تمام وادیوں میں مرغی پائی جاتی ہے جو کہ ناپاک ہے تو اس کے اثرات کالاشہ دیہار پر یوں پڑے ہیں کہ دیہار اب ناپید ہونا شروع ہوگئے ہیں۔” یہ کالاشہ لوگوں کی خود تراشیدہ کوئی legendہوسکتی ہے مگر مصنف کو اس کو اس طرح بے باکانہ انداز میں بیاں نہیں کرنا چاہئے۔ اسی صفحے میں کالاشہ لوگوں کی معیشت اور ذریعہ آمدنی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس میں چلغوزے کا تذکرہ نہیں ہے جو ان کا ایک اہم ذریعہ معاش ہے۔
6۔ کتاب میں بعض مقامات پر تکرار نظر آتی ہے۔ اس کو repetition کہہ لیں یا پھر redundancy، بہرکیف بوجھل سی معلوم ہوتی ہے۔ صرف ایک مثال پر اکتفا ہے۔ صفحہ 99 میں کمویری زبان کے باب میں لکھا ہے: بولنے والے اپنی زبان کو “کموریری” اور خود کو “کوم” کہتے ہیں۔ “کوم” قبیلے کا نام ہے اور “ویری” کے معنی ہیں زبان۔
صفحہ 100 میں یہی بات کچھ اس طرح لائی گئی ہے: “کتہ” اور “کوم” ان قبیلوں کے نام ہیں اور “وری” کے معنی ہے زبان۔
7۔ صفحہ نمبر 141 میں لکھا ہے کہ گوجر لوگ اپنی زبان بولتے ہوئے ہجکچاتے نہیں ہیں اور دوسری زبان بولنے والوں کے سامنے اپنی زبان آزادی سے استعمال کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بوس۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت ہی احساسِ کمتری کے شکار لوگ ہیں۔ ارندو کے گوجر پشتو اور شیشی کوہ کے گوجر صرف کھوار بولتے ہوئے ہچکچاتے نہیں ہیں۔
اسی طرح صفحہ 136 میں ایک ہیڈنگ “گوجری بولنے گروہ اور ان کی چترال آمد” پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہیڈنگ میں تو غلطی نہیں ہونی چاہئے۔
گوجری ثقافت کی سرخی میں ایک ایسی رسم کا تذکرہ ہے جو کہ اب ناپید ہو چکی ہے۔ لکھتے ہیں “شادی کے لیے لڑکے کا خاندان لڑکی والوں کو ایک خاص تعداد میں بکریاں دیتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں لڑکا لڑکی والوں کے ہاں بکریاں چرانے کی خدمت کرتا ہے۔”۔ اب یہ رسم نہ ہونے کے برابر ہے۔ سو میں شاید پانچ فیصد بھی نہیں رہی۔ اس کو گوجر ثقافت نہیں کہا جا سکتا۔ مصنف کو معاف کیا جا سکتا ہے کہ اس نے یہ بات اپنے تخیل کے زور پر نہیں لکھی بلکہ کسی ریسرچ پیپر کا حوالہ دیا ہے۔ مگر ہے تو مبنی بر حقیقت نہیں۔
8۔ صفحہ 159۔ مڈک لشٹ کے لوگوں کو ماضی میں ہی نہیں، حال میں بھی تاژی اور زبان کو تاژی وار کہا جاتا ہے۔ اس پر ماضی کے پہرے بٹھانے کی تک نہیں بنتی۔
کوئی کتاب چھوٹی موٹی غلطیوں سے پاک صاف نہیں ہو سکتی۔ دوسروں کی کتاب میں نقائص ڈھونڈتی اسی تحریر میں آپ ایسی دسیوں غلطیاں نکال سکتے ہیں۔ کتاب اپنے موضوع کے حوالے سے مجموعی طور پر بہترین ہے۔ چترال میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو یکجا کرکے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ اس کو اسی اینگل سے دیکھنا چاہئے جس طرح آثار قدیمہ والے صدیوں کے گرد میں لپٹے کسی ورثے کو ڈھونڈ نکالیں اور پھر پوری دلکشی و دل آویزی کے ساتھ ایک آرکیو میں سجا دیں۔