حق و بااطل کے اس معرکے میں آپ کس طرف ہیں؟
Which side are you on in the battle of right and wrong?
جمہوریت، انسانی حقوق ، روشن خیالی اور لبرلزم کے علمبرداروں سے یہ سوال اکثر ہوتا ہے کہ حالیہ رسہ کشی میں آپ کس طرف ہیں؟ اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں تو خان صاحب کے کیمپ میں کیوں چلے جاتے؟ آخر تاریخ میں “پہلی بار” کوئی لڑکوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر تو بات کر رہا ہے۔ لڑکے اب تک کیا کرتے آئے ہیں؟ چاہے وہ مارشل لاکے تاریک راج ہوں، انتہا پسندی کا فروغ ہو، جتھے پالنے کی روش ہو، مسلنگ پرسن کا معاملہ ہو، سسٹم اور ریاستی اداروں کی رگوں میں بہتا لہو ہو، پسِ پردہ جمہوری حکومتوں کی باگ کھینچنے کی روایت ہو، آزادئ رائے اور آزادئ صحافت پر قدغنیں ہوں، یہ سب اور اس کے علاوہ بہت کچھ ہماری تاریخ یا لڑکوں کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ دشمن کا دشمن اپنا دوست ہوتا ہے۔ کیا آج وقت نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لشکر کا حصہ بن کر اپنے حصے کی شمع جلائی جائے؟ کیوں نہ آج ہم اس پرندے کا کردار ادا کریں جس نے چونچ میں پانی بھر کر آگ بجھانے کی کوشش کی تھی اور اس خلوص اور استطاعت کا اجر پایا۔
دیکھنا تقریر کی لذت۔ واہ۔ کیا من موہنی باتیں ہیں۔ کیا منطق اور معقولیت ہے۔ مگر
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
یہ معاملہ اس قدر سمپل سادہ ہر گز نہیں ہے۔ اگر ایک شخص جمہوریت پسند ہے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ راہِ کو پہچانے بغیر ہر تیز رو کے ساتھ چلنے لگے۔ مانا کہ یہ فوج کے خلاف اعلانِ جنگ ہے مگر یہ بھی دیکھو کہ یہ طبلِ جنگ کو ن بجا رہا ہے؟اور اس ظالم کو کس وقت خدا یاد آیا ہے؟ اور اگر یاد آیا ہے تو کیوں یاد آیا ہے؟ اس سے حاصل کیا ہوگا؟
ان سوالوں کے جوابات تشنہ چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے۔ باغ تو سارا جانے ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خان اور پی ٹی آئی سے یہ امید ہی نہیں ہے کہ وہ جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی پاسداری میں اس چڑیا کا کردار ادا کریں گے۔ اگر یہ اعتبار ہوتا تو خوشی سے مر جاتے اور اس لشکرِ انصاف کا حصہ بن جاتے ۔ اس بے اعتباری اور بے یقینی کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ
خان صاحب اسٹیٹمین نہیں ہیں۔ وہ کردار کے غازی کبھی نہیں رہے۔ مصلحت کیش ہیں۔ آج سے دس سال پہلے وہ یہی باتیں کیا کرتے تھے جو آج کر رہا ہے۔ آج سے پانچ سال پہلے جب اس کے پاس زمام کار اقتدار آیا تو سب سے زیادہ فوج کو اسی نے اسپیس دی اور پرو اسٹیبلشمنٹ بن کر جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھوکتے رہے۔ مخالفین کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جو آج اس کے ساتھ ہو رہاہے۔ دوسری بات یہ کہ
یہ اقتدار کی جنگ ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی ہر گز نہیں۔ کل اگر اقتدار میسر آیا تو سب اپنے اپنے بیرکوں میں چلے جائیں گے۔ نہ کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوگا۔ نہ جی ایچ کیو پر دھاوا بولا جائے گا۔ راوی چین ہی چین لکھے گا۔۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ جلاؤ گھیراؤ ایک دیومالائی شخص کے لیے ہے۔ وہ شخص رہا ہوا تو روای نے تب بھی چین ہی چین لکھا۔ جمہوریت ایک شخص کا نام تو نہیں ہے۔ انسانی حقوق کسی ایک ذات تک تو محدود نہیں ہیں۔ اس شخص کو جب آپ نے اپنی” ریڈ لائین” قرار دے دیا اور عقیدت کا مالا پہنا دیا ، جو اس شخص کو آپ کی نظر سے نہیں دیکھتا تو پھر یہ توقع کیوں کہ اس کے لیے سب آپ کی آواز بنیں گے۔ اس ایک شخص کی زلفوں کے سب اسیر ہو جائیں گے۔ دنیا مختلف الخیال لوگوں سے آباد ہے۔ سب ایک جیسا نہیں سوچا کرتے۔ آپ قیس بنیں۔ وہ لیلٰی کہلائے۔ ہماری بلا سے۔ مگر ہم سب کیوں آپ کے دیوتا کی پوجا کریں گے؟
اب چوتھے پوائنٹ پہ آتے ہیں۔ یہاں جو فوج کے خلاف محاز آرائی کی گئی ہے، وہ اپنی بنیاد میں غلط ہے۔ نہ طریقہ ٹھیک ہے اور نہ ہی اس سے کسی خیر کی امید ہے۔ لڑکوں کو نے یہ سب خوشی خوشی سہ لیا اور کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لیا تو یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہارے۔ آپ جیتے۔ جس کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے اور طاقت ور ہوتا ہے، وہ اگر صبر اور تحمل کا مظاہرہ بھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی محرک کارفرما ہوتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے۔
آخری بات۔ خان صاحب نہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھے، نہ ہیں اور نہ رہیں گے۔ وہ اس قدر ہی فوج مخالف ہیں جتنا امریکہ مخالف ہیں۔ وہ آج بھی حاضر سروس بڑے کا نا م نہیں لیتا، جو قصہء پارینہ بن گیا، اسی حاجی صاحب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ نہ ہی امریکہ پر آج یہ الزام دھر رہا ہے کہ اس کو کیوں نکالا۔
قصہ طویل ہو گیا۔ اور تمام ہوا۔ سوال یہ تھا کہ حق و باطل کے اس معرکے میں آپ کس طرف ہیں؟کم سے کم اپنی ذات کی حد تک بتا سکتا ہوں کہ کسی طرف نہیں ہوں۔ اس کی بھی کم سے کم پانچ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ: یہ “حق و باطل” کا معرکہ ہر گز نہیں ہے۔ دوسری، تیسری،چوتھی اور پانچویں وجہ بھی یہی ہے۔
البتہ ایک بات کا کریڈٹ خان صاحب کو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ۔۔۔ سوری اس وقت بھول رہا ہوں۔ وہ گل یاد آگئی تو بتا دوں گا۔ ہاں ہاں۔ خوب یاد آیا۔ وہ کریڈٹ والی بات یہ کہ “تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا۔” کیا ہوا؟ وہ اس وقت بھول رہا ہوں۔ اور خوب یاد بھی نہیں آرہا۔