چترال کے دنگل میں سینیٹر طلحہ محمود کی انٹری اور سیاسی منظر نامہ
چترال میں الیکشن مہم اور سیاسی جماعتوں کا ایک جائزہ
جس کو دو چیزیں میسر ہوں، اس اس کی ناؤ پار لگی، دین و دنیا کی بھلائی پا گیا۔ ایک تو پیسہ اور دوسرے نمبر پر مذہبی طبقے کی حمایت۔ اگر اول الذکر جنس کمیاب حاصل ہو جائے تو دوسری خود بخود دبے پاؤں چل کر آپ کی دہلیز تک پہنچ جائے گی۔
یہی سین چترال میں این اے 1 کی سیٹ پر الیکشن لڑنے والے سینیٹر طلحہ محمود کے ساتھ ہے۔ طلحہ محمود کو دونوں میسر ہیں۔ پیسے کی ریل پیل ہے۔ ایسی چمک دمک کہ پیچھے کھڑے علماء نظر نہیں آتے، قائدِ اعظم کا آگے بڑھتا مسکراتا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔
طلحہ محمود جمیعتِ علمائے اسلام کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پچھلی بار بلدیاتی انتخابات میں جمیعت کی صوبائی اور ضلعی قیادت میں ٹھن گئی تھی۔ صوبائی قیادت نے ایک شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر پیش کیا تو ضلع کے علماء اس کے سپورٹ سے دستبردار ہوئے اور اپنی حمایت کسی اور کے پلڑے میں ڈال دی۔ ہار تو دونوں گئے مگر جمیعت کی صفوں میں جتھہ بندی اور دراڑ کا پول کھول دیا۔ اب کی بار ایسا نہیں ہوا اور ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ طلحہ محمود یا پھر طلحہ فاؤنڈیشن گلدستہء احباب میں بندش کی گیاہ بنا ہوا ہے۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو، رشوت ستانی اور کھلے عام پیسے کی تقسیم کو جواز بخشا جا رہا ہے۔ وہ عالم فاضل وہ فتویٰ گاہیں اپنا سارا وزن ایک شخص کے پلڑے میں ڈال چکی ہیں۔
اگر آپ نے خواتین و حضرات کو پانچ ہزار کے نوٹ تھماتے، جوس کے ڈبے منہ پہ مارتے طلحہ محمود کی فوٹیجز نہیں دیکھیں تو خیر ہے۔ ہم آپ کو بتادیتے ہیں۔ بات پیسوں اور جوس سے آگے بڑھ چکی ہے۔ راشن تقسیم ہو رہے ہیں۔ سلائی مشین کے مراکز قائم ہو رہے ہیں۔ فلاحی کام ہو رہے ہیں۔ کہیں آگ لگ گئی، راہ چلتے کی گاڑی میں گڑبڑ ہو گئی، طلحہ محمود کو آپ حاضر و ناظر پائیں گے۔ وہ ناچار اور غریب طبقے کی آس ہیں۔ وہ یتیموں کا آسرا ہے۔ وہ بیواؤں کا۔۔۔ خیر چھوڑئیے۔
دیگر سیاسی قائدین اور مخالفین جب اعتراضات کرتے ہیں اور اس “سخاوت” کو دھاندلی کا نام دیتے ہیں تو آپ کو معلوم ہے، طلحہ کیا کہتا ہے؟ “مرد کے بچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ۔ میرے سامنے آ کر میرا مقابلہ کرو۔” یہ ہے ہمارے نئے نویلے کنگ سائمن کا نرالا دبنگ انداز۔
مخالفین سے کچھ نہ بن پایا تو الیکشن کمیشن میں درخواستیں دے دیں۔ ضلعی انتظامییہ کو اکسایا۔ اب تک کچھ نہیں ہو سکا ہے۔ طلحہ محمود اپنے فلاحی کاموں میں لگا ہوا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ان کاموں کو اپنی سماجی خدمات کا نام دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آج کل طلحہ فاؤنڈیشن بیٹے کے سپرد ہے۔ اگر وہ چترال کے غریبوں کی مالی معاونت کر رہا ہے تو میرا کیا قصور؟ میں تو الیکشن مہم میں لگا ہوا ہوں۔
ایسے ہونہار بیٹے رب کسی کسی کو دیتا ہے۔ میرے والا تو ایک نمبر کا حرام زادہ ہے۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ چترال میں قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے موزون کون ہے اور جیتنے کے چانسس کس کے زیادہ ہیں۔ پہلے دوسری والی بات کرتے ہیں۔ طلحہ محمود کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں اور مخالفین تک مانتے ہیں۔ بڑی وجوہات میں سےکچھ تو اوپر بیان ہو چکی ہیں اور باقی چترال کے سیاسی افق پر دوسری پارٹیز کی حالتِ زار ہے۔ فضل ربی پی پی پی کی طرف سے ہیں۔ وہ اس قدر شکستہ دل ہیں کہ الیکشن مہم میں بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ عبدا لاکبر چترالی جماعت اسلامی کی طرف سے اس اکھاڑے میں غالبا چوتھی بار اترے ہیں مگر اب کی بار پوزیشن کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ البتہ پی کے 2 کی سیٹ پر براجمان حاجی مغفرت شاہ لیڈنگ پوزیشن میں ہیں مگر ان کے مخالفین بھی تگڑے ہیں۔
این اے ون کے لیے لڑنے والوں میں شہزادہ افتخار بھی بیک فوٹ پر ہیں۔ ان کی نہ مہم جوئی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک یہاں ہے۔
اب رہ گیا عبدالطیف جو تحریک انصاف کی طرف سے بوتل پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ آج کے سیناریو میں یوں لگتا ہے کہ اصل مقابلہ طلحہ محمود اور عبدالطیف کے بیچ ہے۔ عبدالطیف کا اپنا ووٹ بینک نہیں ہے اور وہ کئی بار ہار چکا ہے۔ طلحہ کی طرح ان کا پیسہ بھی نہیں بولتا۔ مگر اب کہ ایک انصافی لہر آئی ہوئی ہے۔ مظلومیت کی چادر اوڑھے لطیف جب اپنی انتخابی مہم میں خان صاحب کی قید و بند کی صعوبتوں اور ریاست کی طرف سے جبر و ناروا کے قصے روہانسے انداز میں سناتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اوسط درجے کا تعلیم یافتہ، مڈکل کلاس اور نوجوان طبقہ عبدالطیف کے ساتھ ہے اور وجہ عمران خان ہے۔ مگر چترال میں دیہاتی، مذہبی اور نادار و غریب لوگوں کی اکثریت ہے اور یہ طلحہ محمود کو ہی سپورٹ کرنے جا رہے ہیں۔ اس طرح موجودہ حالات میں طلحہ محمود تھوڑا سا آگے ہے۔
رہ گیا یہ سوال کہ بہتر آپشن کیا ہے؟ متفرق آراء پائی جاتی ہیں۔
ایک طبقہ کہتا ہے کہ یہ امپورٹڈ مال ہے۔ الیکشن جیت کر یہاں سے فرار ہو جائے گا اور علاقے کی محرومیاں اسی طرح رہیں گی۔ مذید یہ کہ طلحہ ہماری غربت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ یہ دل گرفتہ طبقہ ساحر لدھیانوی کی نظم “تاج محل” دل دوز انداز میں سنانے لگ جاتا ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ظالم کے پاس پیسہ بہت ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک تو حکومتی فنڈز نہیں کھائے گا اور چترال میں ہی لگائے گا۔ دوسری طرف اپنا جیپ خرچ کاٹ کر ہمیں کچھ دے گا۔ یہ بھی نہ ہوا تو طلحہ محمود فاؤنڈیشن کی تجوری یہاں کھول دے گا۔
رہ گیا یہ اعتراض کہ جیت کر گدھے کے سر کے سینگ بن جائے گا تو مؤخرالذکر طبقہ کہتا ہے: آپ نے اپنے افتخار، عبدا الاکبر اور دوسرے منتخب نمائندوں کو کتنی بار اور کہاں دیکھا ہے؟ الیکشن جیت کر تو یہ بھی ہوا ہو جاتے ہیں۔ اپنا طلحہ محمود اگر نیچے کہیں چلا بھی گیا تو ہم یہی حسنِ ظن رکھیں گے کہ عافیہ صدیقی کو رہا کرنے گیا ہے۔
اور یہ کہ ہمارا طلحہ سیدھا کوئی وزیر بنے گا۔ یہ ایسے نہیں بیٹھے گا۔ کوئی حکومتی عہدہ سنبھالے گا۔ ایسا ہوا تو چترال میں یہ خشک سالی، قحط، روڈ، پہاڑ، مولوی، معدنیات بھوک و افلاس سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر طرف حسن بن صبا کی جنت کا منظر دیکھو گے۔
جواب میں پہلے والے بھائی بند سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ کے حاتم طائی نے مال و دولت، دل و جان ہم پر نچھاور کر بھی دیے تو آپ کے یہ ملا لوگ،یہ ٹھیکہ دار، یہ وغیرہ وغیرہ ہمارے منہ تک نوالہ پہنچنے سے پہلے ہی اچک لیں گے۔ گلیمِ بوزر و چادرِ زہرہ راہ میں ہی بیچ کھائیں گے۔ ہمیں اس مشقِ ستم سے کیا ملے گا؟
جواب آتا ہے: یہ جس طرح جوس، پیسہ، راشن اب اپنے مبارک ہاتھوں سے تقسیم کر رہا ہے، جمع خاطر رکھئے آپ کو اسی دستِ ساقی سے جام پلایا جائے گا۔
رہ گئی ہماری ذاتی قیمتی رائے۔ اس کو فی الحال محفوظ کرتا ہوں۔ ہمیں اب تک کچھ نہیں ملا ہے۔ گل بھی پھینکیں ہیں اوروں کی طرف اور جوس بھی۔ جس دن یہ خانہ بر اندازِ چمن کچھ ادھر پھینکے گا تو ہم فیصلہ سنا دیں گے۔