Non-Fiction

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: توقعات اور خدشات

قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے، چیف جسٹس صاحباں سے اختلافات، اعتراضات، توقعات اور خدشات کا جائزہ

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی طوفانی موجوں کے بھنور میں ہیں۔ ان کے سامنے وراثت میں ملی منقسم عدلیہ، سیاسی افراتفری کا ماحول، ججوں میں ان بن اور دھڑے بازیاں، فوجی عدالتوں کا کھلواڑ اور انسانی حقوق کی پامالی، نوے دن میں الیکشن کروانے، ذیلی عدالتوں کی حالتِ زار اور اعلٰی عدالت میں پڑے ہزاروں زیر التوا کیسز، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عطا بندیال کے حکمِ امتناعی کی لٹکتی تلوار جیسے مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا طومار پڑا ہے۔ یہ تو وہ چند مسائل ہیں جو کہ ان کے آئینی دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ورنہ ہمارے ہاں کچھ آشفتہ سر جج ڈیم بنانے سے لے کر بھوکے عوام کو دو وقت کی روٹی دینے تک کے  غیر واجب الادا قرض چکاتے رہے ہیں۔مگر نتیجہ کیا نکلا؟ سب کے سامنے ہے۔ عوام، ملک اور نظام کیا بلند پروازی کرتا، عدالت مزید پستیوں کی طرف گامزن ہوگئی۔ 

 امید یہی ہے کہ قاضی صاحب افتخار چودھری اور ثاقب نثار کا نعم البدل ثابت نہیں ہوں گے۔ ورنہ شہرت اور توقعات کے حساب سے دیکھا جائے تو “مغل سے کسی طرح کمتر نہیں” والا سین ہے۔  جوڈیشل ایکٹیوزم  کا کھیل بہت کھیلا جا چکا۔ اب ادارے اپنے حدود میں رہیں تو ملک و قوم پر بڑا احسان ہوگا۔ کوئی چیف جسٹس، چییف آف آرمی اسٹاف یا وزیر اعظم مسیحا نہیں ہوتا اور نہ ہی سارے دکھوں کا درمان ایک شخص کے پاس ہوتا ہے۔ مگر واقعہ ہے کہ جو بھی آتا ہے، اپنے آپ کو مسیحا سمجھ بیٹھتا ہے۔

قاضی فائز عیسٰی کے بے باک فیصلے اور تاریخ ساز کردار

قاضی صاحب اپنے بولڈ اور بیباک فیصلوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تاثر محکم ہے کہ وہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلے صادر کرتے ہیں اور پھر یہ نہیں دیکھتے کہ ان فیصلوں سے  کسی طاقت ور ادارے پر حرف آتا ہے یا کوئی سیاسی قوت نشانہ بنتی ہے۔ 

فیض آباد دھرنا کیس میں قاضی صاحب نے کھلے عام ایجنسیوں کا تذکرہ کیا۔ ساتھ  ہی کاروائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ اس سے  پہلے 2016 میں کوئیٹہ بم دھماکے کے بعد جب انکوائری  کمیشن  بنی تو بطور  سربراہ ، قاضی صاحب نے حکومت سمیت سکیورٹی ایجنسیوں پر بھی الزام لگایا کہ آپ لوگوں کی غفلت سے یہ ہوا۔ اس سے بھی زرا پیچھے جائیں تو 2011 میں میمو گیٹ سکینڈل کی سربراہی کی اور حسین حقانی کے فعل کو غداری اور نمک حرامی قرار دے دیا۔

اسی طرح جب وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ہزارہ برادری کے26 افراد کا قتل ہوا۔ چیف جسٹس نے اس کا سوموٹو لیا۔ اسی دوران تین قوم پرست بلوچ رہنما مارے گئے تو نہ صرف سوموٹو لیا بلکہ خفیہ ایجنسیوں کو ہدایات جاری کیں کہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔ جب بلوچستان میں چیف جسٹس تھے تو کالعدم تنظیموں کے بیانات نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔ کچھ صحافی حضرات نے کہا کہ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو دہشت گرد ہمیں مار دیں گے۔ ان صحافیوں نے  کالعدم تنظمیوں کے دعوے اور بیانات چھاپے تو قاضی صاحب نے پولیس کو کہہ دیا کہ انسداد دہشتگردی کی دفعہ کے تحت صحافیوں کے خلاف مقدمے دائر کریں۔ 12 سے کچھ اوپر مقدمات وہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔

اسی طرح چیف جسٹس کا اسٹانس گم شدہ افراد کی بازیابی، انسانی حقوق کی پاسداری، اقلیتی برادری کے حقوق کا تحٖفظ، فوجی عدالتوں میں سیولین کے مقدمات کی مخالفت، خواتین کو حقوق دینے، قانون کی حکمرانی، اظہارِ رائے کی آزادی، عدلیہ کی بالادستی اور اس طرح کے کئی معاملات میں بڑا واضح ہے۔

چیف جسٹس صاحباں سے نا چاقیاں

دو ہزار چودہ میں سپریم کورٹ میں تعیناتی کے بعد سے لے کر اب جب کہ وہ  چیف جسٹس  فائز ہو گئے ہیں، قاضی صاحب کے تعلقات اکثر چیف جسٹس صاحباں سے کشیدہ رہے۔ شروع کے چیف جسٹسز قاضی صاحب کو بنچوں سے الگ کرتے رہے۔ بعد میں وہ خود الگ ہوتے رہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں پی ٹی آئی کی طرف سے پارٹی ورکرز کا اجلاس کنونشن سینٹر میں بلائے جانے اور ارکان پارلمنٹ کو فنڈز دینے پرقاضی صاحب برا مان گئے۔ چیف جسٹس گلزار کو بائی پاس کرکے خود ہی سوموٹو لے لیا۔ بعد میں گلزار نے پانچ رکنی بنچ تشکیل دے کر قاضی کو  پیغام دیا کہ بھائی آپ تھوڑا سا اپنی باری کا ویٹ کریں۔ یہ اختیار صرف میرے پاس ہے اور آئندہ آپ عمران خان سے متعلق کوئی کیس نہیں سنیں گے۔ یعنی آپ تو باقاعدہ فریق بنتے جا رہے ہیں۔

قاضی صاحب کو اپنے بڑے ثاقب نثار کی ڈیم کے لیے فنڈز ریزنگ زرا نہ بھائی۔ ثاقب نثار نے وکلا سے مطالبہ کیا یا تو آپ وقت کی پابندی کریں۔ التوا کی درخواست نہ دیں۔ اگر غفلت سے کام لوگے تو جرمانہ ہوگا اور جرمانہ سیدھا ڈیم میں جائے گا۔ قاضی نے وکلا کے کان میں پھونک دیا

“بہتر ہے کہ وکلا جرمانے کی رقم کسی خیراتی ادارے میں جمع کروائیں”

چیف جسٹس عطا بندیال کے ساتھ تعلقات اس وقت بگڑے جب قاضی صاحب کے خلاف صدارتی ریفرنس لایا گیا۔ بعد میں جب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پاس ہوا اور بندیال نے حکمِ امتناعی جاری کیا تو قاضی صاحب سر پکڑ کر سائڈ پہ بیٹھ گئے۔ کسی بنچ کا حصہ نہ بنے۔ یہاں تک کہ ملٹری کورٹ جہاں ان کا اصولی موقف عیاں تھا، سے بھی کنارہ کشی کر لی۔ یعنی ہمارے چیف جسٹس اتنے اصول پسند ہیں کہ اگر راہ میں ان کے اپنے اصول بھی آئیں تو خاطر میں نہیں لائیں گے۔  پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔

بات صرف گلزار، ثاقب نثار یا  بندیال سے اختلافات تک محدود نہیں، قاضی صاحب شاید ہی کسی چیف جسٹس سے نبھا کر پائے۔  یہ تاریخ دیکھ کر خیال گزرتا ہے کہ قاضی صاحب کو موجودہ چیف جسٹس اور اس کے فیصلوں سے بھی شدید اختلافات ہوں گے۔ خدشہ ہے ایک طویل نوٹ اپنے ہی فیصلوں کے خلاف لکھ نہ ماریں۔

قاضی فائز عیسٰی پر اعتراضات

قاضی صاحب پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ وہ کسی کمیشن کی سربراہی کرتے ہیں تو باقاعدہ محرکات تک پہنچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور پھر اپنے فیصلوں میں تفصیلات بیان کرتے ہیں۔ یوں قانوں کی زبان فیصلوں میں کم اور پاپولسٹ بیانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ محرکات تک پہنچنا، کرداروں کی نشاندہی کرنا، تفتیشی افسر یا انویسٹیگیٹیو جرنلسٹ کا کام ہوتا ہے۔

قاضی صاحب کچھ ماہ پہلے جب میڈیا کے سامنے آئے اور تمام ٹی وی چینلوں پر بیانات نشر ہوئے تو سوالات اٹھے کہ یہ نئی روایت چہ معنی دارد۔ جج کورٹ روم سے نکل کر باہر کھلی فضا میں کیوں جھانک رہا ہے۔ پھر میڈیا کو کیا بیچ رہا ہے۔ 

پچھلے دنوں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے حوالے سے  پہلی فل بینچ کی کاروائی براہ راست نشر ہوئی۔ وہاں واضح نظر آرہا تھا کہ قاضی صاحب کیمرہ میں جھانک کر بولنے کے دلدادہ ہیں۔ وکیلوں کو بھی ایک آدھ بات کرنے دی مگر زیادہ تر سیلف پروجیکشن  میں لگے رہے۔ بیان دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ وہ قانون کی زباں کم بولتے ہیں، عام فہم اور پاپولسٹ سیاست دان کی بولی زیادہ بولتے ہیں۔

اس طرح کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ قاضی صاحب فارغ اوقات میں اپنے کام کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ شارع دستور پر ریڑھی والا نظر آیا تو ٹریفک حوالدار کی طرح رک کر اس سے لائسنز کا پوچھ لیا۔ بھگا دیا۔ شارع دستور پر کھڑی گاڑیوں کی انسپیکشن شروع کر دی۔ ہو سکتا ہے کوئی فرد کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہو۔ صدر علوی کے پروٹوکول پر جہاں ٹریفک بلاک ہوئی، اسلام آباد پولس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ظاہر ہے یہ سارے دردِ سر انہوں نے خود پال رکھے ہیں۔ جج کا کام تو کورٹ روم میں ہی ہوتا ہے۔

قاضی صاحب سے توقعات

قاضی صاحب سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔ اور ان توقعات کی وجہ بھی قاضی صاحب خود ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک ایسا بت تراش کر پیش کیا ہے جو بہت سارے چیف جسٹس یا آرمی چیف عہدہ سنبھالنے کے بعد تراشتے ہیں۔ عمران خان نے بھی یہی کیا تھا۔ جب ڈیلیور نہ کر سکے تو نوجوان اور مڈکل کلاس کا رومان پرور خواب ٹوٹ گیا۔ 

عطا بندیال جاتے جاتے سخت متنازعہ نوعیت کے کیسز قاضی صاحب کو سونپ گئے ہیں۔ ملٹری کورٹ ان میں سے ایک ہے۔ لڑکوں پر ہاتھ ڈالنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ قاضی صاحب کیا کرتے ہیں؟ دیکھا جائے گا۔ دوسرا اہم کیس سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا ہے۔ اس سے بھی نمٹنا ہے۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ ہے۔ الیکشن کا اشو بھی ہے۔ لینڈ ریفارم کیس، عدلیہ کی بالادستی، سپریم جوڈیشل کونسل میں اصلاحات اور جج صاحباں کا شفاف احتساب، جوڈیشری میں اصلاحات، لوئیر کورٹس کا مورال بلند کرنا اور جلد از جلد کیسز سے نمٹنا، زیر التوا کیسز کو برق رفتاری سے سر انجام دینا، اس طرح کے کئی چلنجز سے نمٹنا ہے۔

قاضی فائز عیسٰی کا سب سے بڑا امتحان

قاضی کی غیر جانب داری، اعلٰی ظرفی، قانون و آئین پر عمل در آمد اور اپنے حلف کی پاسداری کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے معاملات میں کیا رویہ اپناتے ہیں۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ  قاضی صاحب عمران خان کے کوئی ڈائر ہارٹ فین  نہیں ہیں۔ انہی کے دور میں صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔ عدالتوں میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رُلتے رہے۔ چیف آف آرمی کو تو صرف ایک عہدے سے نکال کر دوسرے پر لگا دیا تھا اور فوج کو برا بھلا کہہ دیا تھا۔ پھر پی ٹی آئی کا کیا انجام ہوا؟ سامنے ہے۔

یہ بات بھی سامنے ہے کہ جس طرح نواز شریف کے خلاف مقدمات سیاسی حکمت عملی  اور رجیم چینچ کا شاخسانہ تھے، اسی طرح عمران خان کو بھی سیاسی بنیادوں پر ہی دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ایسا کیا جرم کیا کہ ایک سال میں ان کے خلاف 150 سے زائد کیسز فائل ہو گئیں۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سیاہ باب الگ سے رقم ہو رہا ہے، جس کے قاضی صاحب سخت ناقد رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی کئی خواتین اور کارکن، چوٹی کے سیاست دان قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔ یہ مکافات عمل ہے یا پھر ان کی اپنی سیاسی غلطیاں، بہرحال قانون و آئین کی زبان اور ایک غیر جانب دار جج کے فیصلے کیس کی نوعیت اور دلائل و شواہد کی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی پسند نا پسند، ماضی میں کس نے میرے ساتھ کیا کیا اور کسی کو گھر تک پہنچا آنے کی خو سے باز رہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں قاضی صاحب کیا گل کھلاتے ہیں۔

Muhammad Nabi Chitrali

"Either write something worth reading or do something worth writing." Ben Franklin I'm Muhammad Nabi, a creative writer and content creator who firmly believes that words matter. Expression counts. The purpose of this website is to showcase my portfolio, including my stories, content, and Travelogue experiences. If you want to learn more about me, my journey, and this website, please visit the About page.

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button