HumorInterviewsNon-Fiction

غزہ اسرائل تنازعہ:  بسیم  یوسف  کا انٹرویو

تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر

بسیم یوسف ایک مزاحیہ ٹی وی ہوسٹ ہیں۔ مصر سے تعلق ہے مگر امریکہ میں رہائش پزیر ہیں۔ کچھ سال پہلے ان پر فوج پر طنز کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ ان کا سسرال غزہ میں ہے۔

پچھلے دن صحافی پیرز مورگن نے انہیں اپنے ٹی وی پروگرام میں بلایا اور غزہ کی صورت حال پر بات چیت کی۔
بسیم یوسف نے جس طنزیہ انداز میں امریکیوں اور اسرائلیوں کو آڑے ہاتھ لیا، دیکھنے کے قابل ہے۔ انٹریو کی چند جھلکیاںپیش خدمت ہیں

صحافی: غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس حوالے سے آپ کا ردعمل کیا ہے؟

بسیم یوسف: یقینا المناک ہے۔ میری بیوی کا خاندان غزہ میں ہے۔ ہم ان سے بات نہیں کر سکتے۔ ان کا گھر مسمار ہو چکا ہے۔ مگر ہم عادی ہو چکے ہیں۔ یہ بار بار ہوتا ہے۔

فلسطینی ویسے ہی ڈراما کرتے ہیں۔ اسرائل ہمیں قتل کر رہا ہے۔ مگر یہ مرتے نہیں ہیں۔ یہ پھر سے ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ان کو قتل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ میں جانتا ہوں کیوں کہ میں نے ان میں سے ایک سے شادی کی ہے۔ کئی دفعہ میں نےکوشش کی مگر نہ مار سکا۔

صحافی: آپ المیاتی پہلو سے مزاح کر رہے ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔

یوسف: نہیں یہ مزاح نہیں ہے۔ میں جتنی بار اس (بیوی) کو مارنے کی کوشش کرتا ہوں، وہ بچوں کو “انسانی شیلڈ” (ڈھال) کے طور پر استعمال کرتی ہے اور میں مار نہیں پاتا۔

صحافی: میں سمجھ سکتا ہوں۔ ہم سنجیدہ ہو رہے ہیں۔

یوسف: چلو میں سنجیدہ ہو جاتا ہوں۔ آپ کے شو میں ایک شخص کہہ رہا تھا کہ جتنا ہوسکے، ہم ان کتے کے بچوں کو ماریں گے۔ جو بھی اسرائل کی مخالفت کرتا ہے، وہ دہشت گردوں کا ہمدرد ہے اور اللہ کی پناہ۔ میں کیسے دہشت گردوں کے ساتھ نرم رویہ رکھ سکتا ہوں۔ مجھے اتفاق ہے۔ جتنا ہو سکے ان کو مارنا چاہئے۔ اب تک 3500 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی بچے تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ مزید کتنے کتے کے بچے مارے جائیں تاکہ آپ خوش ہو جائیں؟

میرے پاس ایک چارٹ ہے۔ 2014 میں ایک اس طرح کی جھڑپ میں 88 اسرائلی مرے تھے اورجواب میں 2329 فلسطینیوں کا خون ہوا۔ یعنی ایک اسرائلی کے بدلے 27 کتے کے بچے مارے گئے۔ 2018 میں 300 فلسطینی مارے گئے۔ یہ ایک بہت اچھی شرح مبادلہ ہے۔ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ آج ہماری شرح کیا ہونی چاہئے؟ تاکہ آپ خوش ہو جائیں؟

صحافی: میں کسی سائڈ پر نہیں ہوں۔ حماس نے اسرائلی لوگوں کو اغوا کیا، بچوں کو مارا۔ شہری مرے۔ اگر آپ اسرائلی ہوتے تو آپ کا کیا ردعمل ہوتا؟

یوسف: میں یہی کرتا جو اسرائل کر رہا ہے۔ جتنا ممکن ہو سکے، لوگوں کو مارو۔ میں یہی کرتا کیوں کہ “میں کر سکتا ہوں۔” میں آپ سے ایک قدم آگے بڑھتا ہوں۔ اگر سوال کریں کہ کیا آپ حماس کی مذمت کرتے ہیں؟ تو جی ہاں۔ میں مذمت کرتا ہوں۔ حماس ساری برائیوں کی جڑ ہے۔

مگر آپ ایک کام کریں۔ ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں حماس سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس دنیا کو آپ مغربی کنارے کا نام دیں۔ یہ دنیا کیسی دکھائی دے گی؟ حماس کا اس دنیا پر قبضہ نہیں ہے۔ اسی سال اگست سے شروع کریں۔ 37 فلسطینی مارے گئے۔ کوئی میوزک فیسٹول نہیں تھا۔ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں تھا۔ کوئی حماس نہ تھا۔ اب تک اس مغربی کنارے پر قبضہ کے بعد 7000 فلسطینی مارے گئے ہیں۔ کوئی میوزک فیسٹول نہیں۔ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں۔ کوئی حماس نہیں۔

صحافی: میں آپ کو تھوڑا سا روک رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔

یوسف: اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں بات نہ کروں تو مجھے اجازت دیجئے کہ حماس کی مذمت کروں اور اپنے گھر چلا جاؤں۔

صحافی: نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔

یوسف: بہت اچھا۔ تو پھر مجھے کہنے دیجئے ۔ میں اسرائل کے حوالے سے ایک چیز کی تعریف کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی بھی فوج یہ نہیں کرتی۔ میں نے یہاں کچھ لوگوں کو سنا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائلی فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس نے بمب گرانے سے پہلے شہریوں کو خبردار کیا۔ واہ۔ کیا معصومیت ہے۔ وٹ اے فکنگ کیوٹ۔

اس منطق کے مطابق اگر روس یوکرین کو خبردار کرکے مارے تو ہم یہی کہیں گے نا کہ پیوٹن ٹھیک کر رہا ہے۔

اوکے حبیبی۔ آپ خبر دار کرتے جائیں۔ آپ جائیں وہاں۔ ان کو ماریں۔ اپنا کام کریں۔

غزہ میں میری بیوی کا کزن ہے۔ جھوٹا اور ڈرپوک۔ اس سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ کواسرائل نے وارننگ دی اور حماس نے کہا کہ آپ گھروں سے نہ نکلیں کیوں کہ وہ آپ کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مگر آپ لوگ جھوٹے کیسے ہو سکتے ہیں؟ یقیناََ وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا ہوگا۔

اگر ہم اس پر اتفاق کر لیں کہ 14 ہزار اموت (کون گنتا ہے؟) اگر انسانی شیلڈ تھے تو اس کا مطلب ہے کہ اتنی تعداد میں لوگ ملٹری حدف کے پیچھے چھپے ہوئے تھے؟

صحافی: نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔

یوسف: تو آپ کا مطلب ہے کہ فوجی کاروائی میں تھوڑا سا عام لوگوں کا نقصان ہو گیا۔ آپ کچھ کو بچانے کے لیے کچھ کو ماریں گے۔ اور پھر کچھ مزید لوگوں کو ماریں گے۔ ہاں۔ ہاں۔ مجھے اتفاق ہے۔

صحافی: شہریوں کا نقصان ہوا، یہ افسوس ناک ہے اور میں نے اس پر کالم بھی لکھا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ اسرائل کی طرف سے مناسب جوابی کاروائی کیا ہونی چاہئے تھی؟ تناسب کے لحاظ سے۔

یوسف: میرے پاس “مناسب کاروائی” کا یہ چارٹ ہے۔ کیا اس نے مسئلے کو حل کر دیا ہے؟ کیا اس کاروائی نے پہلے کام کیا ہے جو اب ہم امید کریں؟اس بار مختلف کیا ہوگا؟

صحافی: اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟

یوسف: سب سے پہلے تو آپ کو یہ سوچ بدلنی ہوگی کہ یہ اچھے ہیں۔ وہ برے ہیں۔ نیکی ہیلی کہہ رہی ہیں کہ یہ برائی اور اچھائی کی جنگ ہے۔ اگر تم نے ایک کے بارے میں یہ طے کر لیا ہے کہ یہ “اچھا ہے” تو وہ برائی کر ہی نہیں سکتا۔ اگر دوسرے کے بارے میں “برا ہے” کا فیصلہ ہوگیا ہے تو یہ بہت اچھا ہے کہ اس کو قتل کر دو۔ برے کو قتل کرنا ہی اچھا ہے۔
معذرت۔ مغرب نے پہلے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہےکہ یہ برے ہیں۔ پھر ان کو جانور کہتے ہیں اور وحشی کا نام دے کر قتل کرتے ہیں۔ ممکنہ طور پر میری نظر میں مسئلے کا حل یہ ہے کہ جتنا ہو سکے، فلسطینوں کو مارو۔ تاکہ جو چند ایک رہ جائیں گے، وہ آپ کو پریشان نہیں کریں گے۔

صحافی: حماس نے یہودیوں کو کرہ ارض سے مٹانے کا کہا ہے۔۔۔۔

یوسف: میں حماس کا ترجمان نہیں ہوں۔ میں نفرت کرتا ہوں۔ فک دیم۔ فک حماس۔ اب آپ خوش ہیں؟

صحافی: ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے خلاف یہ سب سے زیادہ ظالمانہ کاروائی تھی۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ جوابی کاروائی کا تناسب کیا ہونا چاہئے تھا؟

یوسف: میں نہیں سمجھ رہا کہ مغربی کنارے پر کوئی حماس نہیں ہے اور وہ پھر بھی مر رہے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا عذر ہے؟ آپ میرے سوال کا جواب دیں۔

صحافی: میرا کام آپ کے سوال کا جواب دینا نہیں ہے۔

یوسف: بالکل ٹھیک ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے۔ میں اب آپ میں دلچسپی لے رہا ہوں۔
ٹھیک ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حماس مسائل کی جڑ ہے۔ فرض کریں حماس ختم ہوگئی۔ اب فلسطین اور مغربی کنارے کے 20 فیصد افراد اسرائل کی قید میں ہیں۔ باقی جو ہیں، وہ اس طرح کی زندگی جی رہے ہیں کہ روزانہ ان کی زمینوں پر قبضہ ہو رہا ہے۔ ان کے گھر مسمار ہو رہے ہیں۔ مر رہے ہیں اور ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

فرض کریں آپ فلسطینی ہیں اور کئی دہائیوں سے اس حالت میں جی رہے ہیں۔ کیا آپ اپنے غاصب کے ساتھ ہمدردی رکھیں گے یا پھر ان لوگوں کے ساتھ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم مزاحمت کرتے ہیں، ہر چند آپ کی نظر میں وہ دہشت گرد ہیں؟

صحافی: میرا موقف اس بارے میں واضح رہا ہے۔ فلسطینی جس طرح جی رہے ہیں، وہ بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ میں کئی سالوں سے یہ کہتا آیا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ دو جنگجو قوموں کے درمیاں امن کس طرح لایا جا سکتا ہے؟

یوسف: اسرائل غزہ پر بمباری کرکے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ منطق کیا ہے؟

صحافی: ریاست کا مقصد ہے کہ حماس کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ حماس شمالی غزہ میں موجود ہے اور وہ شہریوں کے درمیاں ہے۔ اور عام لوگوں کا نقصان کیے بغیر اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بہت ہی مشکل ہے کہ بغیر عام شہریوں کا نقصان ہوئے حماس کو ہدف بنایا جا سکے۔

یوسف: تو بنیادی طور پر آپ یہ کہہ رہے ہیں، جو میں سمجھا کہ اسرائل فلسطینی شہریوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ حماس کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ کیا آپ یہی کہہ رہے ہیں؟

صحافی: جی۔ کسی حد تک۔

یوسف: اچھا۔ یہ بالکل وہی ہے جو دہشت گرد تنظیمیں کرتی ہیں۔ دہشت گرد ایک پوری قوم کو جنگ میں ہرا کر جیت نہیں سکتے۔ اس لیے وہ وہ ڈرا کر، معصوم شہریوں کو قتل کرکے خوف و ہراس پھیلاتے ہیں تاکہ عوام حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ حکومتیں اپنی پالسیاں بدلیں یا پھر استعفیٰ دے دیں۔ آپ نے یہاں پر اسرائیل کا موازنہ داعش سے کیا ہے۔ کل یہ ہیڈلائن بن جائے گی کہ اسرائل داعش ہے۔

Muhammad Nabi Chitrali

"Either write something worth reading or do something worth writing." Ben Franklin I'm Muhammad Nabi, a creative writer and content creator who firmly believes that words matter. Expression counts. The purpose of this website is to showcase my portfolio, including my stories, content, and Travelogue experiences. If you want to learn more about me, my journey, and this website, please visit the About page.

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button