امریکی جاسوس کی کہانی، ان کی اپنی زبانی
The untold story of a CIA contractor and his controversial role in Pakistan.
قبل اس کے کہ ہم کتاب کا خلاصہ اور ریویو پیش کریں، آئے پہلے دن یعنی 27 جنوری 2011 کو پیش آنے والے اس قیامت خیز دن کی روداد ان کی اپنی زباں میں پیش کریں۔
“میں اپنی سفید سیڈان میں بیٹھا ڈرائونگ کر رہا تھا۔ ٹریفک معمول کے مطابق جاری تھی مگر جیسے ہی مزنگ چوک پہنچے جہاں جیل روڈ اور فیروز روڈ ملتے ہیں، مجھے گاڑی آہستہ کرنی پڑی اور آخر کار ٹریفک کا ایسا ریلا آیا کہ گاڑی روک دی۔ ٹریفک وارڈن کوشش کر رہا تھا مگر رش تھا اور ٹریفک کا جام تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میرے دونوں اطراف میں گاڑیوں کا سمندر تھا اور میں عین وسط میں تھا۔
“مجھے یہاں پر رکے ہوئے دو منٹ گزرچکے تھے۔ اس دوراں میں نے اپنے دائیں جانب دور تک دیکھا اور پھر بائیں جانب جائزہ لینے لگا۔ میں نے شیشے میں دور تک پیچھے دیکھا اور اطمینان کیا کہ سب معمول کے مطابق ہے۔ پھر میں نے اپنی توجہ سامنے روڈ پر مرکوز کر لی۔
“جیسے ہی میں نے سامنے دیکھا، ایک سیاہ موٹر سائکل آکر بالکل سامنے رک گئی۔ اس میں دو سوار تھے۔ ڈرائور کا نام فیضان حیدر اور ساتھی کا نام محمد فہیم تھا۔ محمد فہیم پیچھے بیٹھا کچھ اس طرح گھوما کے بالکل اس کا اگلا دھڑ میرے سامنے آگیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے کمر بینڈ سے پستول نکالی۔
“ایسی حالت کا اگر عام لوگ سامنا کریں تو گھبرا جاتے اور ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے مگر خوش قسمتی سے میری تربیت دنیا کے بہترین انسٹرکٹرز نے کی ہے۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنے اعصاب پر کنٹرول کیا۔ میرے سامنے ونڈ سکرین پر سب کچھ صاف نظر آ رہا تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ محمد فہیم نے پستول کو اوپر کیا اور نشانہ لینے لگا۔
“جیسے ہی پستول کا مزل میری طرف آہستہ آہستہ اٹھنے لگا، میں نے جلدی سے سیٹ بیلٹ کھولی اور بندوق نکالی۔ ان دو آدمیوں کو اندازہ نہ تھا کہ میں اس کام میں کتنا ماہر ہوں اور کس پھرتی سے بندوق نکال سکتا ہوں۔ میں نے بازو کو وینڈ سکرین سے پورا باہر نہیں کیا تھا۔ بندوق باہرکی اور گولی چلا دی اور ٹھیک نشانے پر جا کر لگی۔ دس گولیاں تھیں۔ میں نے ایک کے بعد ایک خالی کر دیں۔
“اس میں وقت کتنا لگا؟ جب میں نے خطرہ محسوس کیا اور خطرہ ٹال دیا، اس کا کل دورانیہ 2 سے 3 سیکندز کا تھا۔”
فہیم اور حیدر کے قتل کے بعد کیا ہوتا ہے؟
ریمنڈ ڈیوس نیچے اتر کر دونوں کی تصویریں لیتا ہے اور واپس جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر سکرین وینڈوز چڑھا دیتاہے اور کنڈی لگا لیتا ہے۔ دونوں بے گور و کفن لاشیں سڑک پر پڑی ہیں۔ خون کی سرخ لکیر دور تک بہہ نکلی ہے۔ لوگ پر خوف و ہراس طاری ہے ۔ وہ افراتفری میں ادھر ادھر بھاگ نکلے ہیں مگر ٹریفک اب بھی جام ہے۔ ریمنڈ ڈیوس گاڑی کو سیف زون سمجھ کر باہر نکل نہیں نکلتا۔ اب روڈ صاف ہونے لگتا ہے اور لوگوں کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس قونصل خانے کو کال کرتا ہے اور حالات سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ قونصل والوں کو خبر دار کرتا ہے کہ لوگوں پر فی الحال سکوت طاری ہے مگر اس مجمع کو مشتعل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ جتنا جلد ممکن ہو مدد کے لئے پہنچ جائیں۔
قونصل خانے کی امدادی ٹیم ابھی تک نہیں پہنچی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس محسوس کرتا ہے کہ ہجوم آہستہ آہستہ مشتعل ہو رہا ہے اور ایک اضطرابی کیفیت گرد و پیش میں وقوع پزیر ہو رہی ہے ۔ اب اس راکھ کے ڈھیر کو آتش فشاں کی صورت اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ جاسوس خطرے کو بھانپ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر قیامت کا رش ہے۔ کس طرف جاؤں؟ وہ اس شش و پنج میں ہے۔ آخر کار دائیں جانب موڑ کر گاڑی قونصل خانے کی طرف مال روڈ پر تیز کر دی ہے۔ اب اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ چھوٹ گیا مگر امید کا یہ چراغ بہت جلد بجھ جاتا ہے۔
مال روڈ پر پیدل لوگوں کا ایسا ہی رش ہے جیسے مزنگ چوک میں ٹریفک کا تھا۔ اب وہ اسی رفتار سے جا رہا ہے جس خوش خرامی سے پیدل پا جا رہے ہیں۔ لوگوں کی وجہ سے ڈیوس کی گاڑی پہلے سے سست روی کا شکار ہے۔ لوگوں کے رش سے کچھ نجات ملی تو ایک خاتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس نیک بخت کو عمر بھر کی فرصت ہے اور اپنی موج میں گاڑی جا رہی ہیں۔ یہ ہارن دے دے کر تھک گیا ہے۔ اب خاتوں نے بیچ چوراہے گاڑی روک دی ہے اور ایک دکان دارکو بلا رہی ہیں۔ شاپنگ میں مصروف ہوگئی ہیں۔ جب یہ پریشانی کے عالم میں ہارن کو دباتے ہیں تو خاتوں کھا جانے والی نظروں سے مڑ کر دیکھتی ہیں اور زبان حال سے کہتی ہیں “اتنا بھی نظر نہیں آ رہا کہ میں شاپنگ کر رہی ہوں؟ قیامت آ گئ ہے تم پر کیا؟”اور ادھر ریمنڈیوس گنگناتا ہے:
کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ریمنڈ ڈیوس مال روڈ پر: ایک بار پھر مشتعل ہجوم کے نرغے میں
انہی سعادت مند گھڑیوں میں ایک موٹر سائکل سوار ہانکتا، چلاتا اور شور مچاتا پہنچ جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چلا چلا کر اردو میں کہتا ہے کہ یہ گورا ابھی دو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر آیا ہے اور بھاگ رہا ہے۔ خلق خدا کو بس یہی چاہئے تھا۔ لوگ بھاگم بھاگ اس شخص کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لپک پڑتے ہیں۔ گاڑی کا مکمل احاطہ کر لیتے ہیں مگر یہ گھنگھٹ گرائے، قفل چڑھائے بیٹھا ہے۔ شائقین کا شوق ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ جب یہ دولہا سہرا نہیں اٹھاتا تو وہ شیشے توڑنے لگتے ہیں۔ یوں گاڑی کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ لوگوں کے مکے ہیں، گھونسے، تھپڑ ہیں اور گورے کا سفید چہرہ ہے۔ وہ ایک ہاتھ سے درواہ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے خود کو بچانے کی۔ مگر کافی عرصہ ہوگیا اور ان کی ہمت جواب دے رہی ہے۔ یہ سوچتا ہے کہ زیادہ دیر تک یہ چوہے بلی کا کھیل نہیں چلے گا اور جلد یہ ہجوم اسے نوچ ڈالے گا۔
ایسے میں ایک خدا ترس ٹریفک وارڈن آتا ہے اور لوگوں کو ادھر ادھر کرکے بیچ میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ اس مشتعل ہجوم سے کہتا ہے “تمھیں پتا بھی ہے کہ اس کے پاس بندوق ہے؟ یہ مار دے گا” مگر لوگوں کا جوش کم نہیں پڑتا۔ البتہ دو رینجرز آئے تو کچھ لمحے کے لئے سناٹا چھا جاتا ہے۔ وہ آ کر سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔
ٹریفک وارڈن ان سے چابی لیتا ہے اور ریمنڈ ڈیوس سے کہتا ہے کہ وہ ان پر بھروسہ رکھے۔ وہ ان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ یقین دہانی کرتا ہے کہ وہ اسے ہجوم کے ہاتھوں بے موت مرنے نہیں دے گا۔ بس وہ اتنی مہربانی کردے کہ بندوق وارڈن کو تھما دے۔ ریمنڈ ڈیوس نے بندوق اسے دے دی ہے۔ وارڈن بندوق کو ہاتھ میں لئے ایک شان بے نیازی سے چل دیتا ہے۔ ہجوم جب یہ دیکھتا ہے کہ گورا اب نہتا ہے، وہ اک نئے ولولے کے ساتھ ان پر حملہ آور ہونے لگتا ہے۔ یہ وارڈن پر چلاتا ہے “اوئے سور کے بچے کدھر جا رہے ہو؟ تو دھوکہ باز۔۔” مگر وہ سنی ان سنی کر کے نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اب لوگ انہیں مار رہے ہیں۔ مگر دو رینجرز والے گاڑی میں آرام سے بیٹھے ہیں۔ اتنے میں وہ کیا دیکھتا ہے کہ وہی ٹریفک پولیس والا واپس آتا ہے اور خلق خدا سے دوبارہ چھڑاتا ہے۔ وہ بندوق کو کسی محفوظ جگہ پر رکھنے کے لئے گیا تھا جسے گورے نے غلط سمجھ لیا تھا۔ (شاید گورے کو معلوم نہ ہو کہ پاکستانی بندوق کو پہلے ٹھکانا لگاتے ہیں یا اپنی شاپنگ پورے اطمینان سے کرتے ہیں۔ دوسری چھوٹی موٹی چیزوں سے بعد میں آرام سے نمٹ لیتے ہیں۔)
ٹریفک پولیس والے نے ریمنڈ ڈیوس کو دھکا دے کر پرے ہٹایا اور ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ہے۔ گاڑی سٹارٹ کی اور پرانی انار کلی پولیس اسٹیشن کی طرف چل پڑتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو بھی یہی چاہئے کہ ان تاریک راہوں میں مارے جانے سے کسی طور بچ نکلے اور کسی محفوظ مقام تک پہنچ جائے۔ جہاں سے بعد میں آرام سے اپنے گھر روانہ کیا جا سکے۔
جیل کی کال کوٹھڑی میں ریمنڈ ڈیوس کے 49 دن
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب “کنٹریکٹر” سے آخری دن( 16 مارچ 2011) کے حوالے سے کچھ اقتباصات ملاحضہ ہوں۔ یہ جیل میں ان کا 49 واں اور آخری دن ہے ۔ پہلے دن کی طرح یہ دن بھی اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ ان کا منتظر ہے۔
“یہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل ہے۔ گزشتہ رات میں سو نہیں سکا۔ آج میری پیشی ہے اور یہ عام پیشی نہیں۔ آج فیصلہ ہونا تھا۔ 14 روزہ ریمانڈ کے بعد پھر دوسرا راؤنڈ چلا تھا اور اس دوراں کئی پیشیاں ہوئیں۔ مگر آج معمول کی کاروائی نہیں ہونی تھی۔
“وزارت انصاف نے اسپیشل سیشن عدالت کا انعقاد جیل کے اندر کیا تھا۔ مجھے ایک فولادی پنجرے میں بٹھایا گیا۔ کیس پر بحث شروع ہوئی۔ وہ کیا کہہ رہے تھے؟ میں زیادہ سمجھ نہ پایا۔ البتہ ایک بات بہت زور سے کانوں میں پڑی اور وہ یہ تھی کہ قتل کےمقدمے میں مجھ پر باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئ۔
“اس دن کو ئی رپورٹر اندر نہیں آیا۔ مگر خبر کانوں کان دور تک پھیل گئی۔ کالم لکھے جانے لگے اور خبریں بننے لگیں کہ میں موت کے بالکل قریب پہنچ گیا ہوں۔ مگر انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ کہانی ختم نہیں ہوئی، ابھی شروعات تھی۔
“جج نے حکم دیا کہ عدالت خالی کی جائے۔ سارے غیر متعلق افراد نکل گئے اور چند ایک خاص رہ گئے۔ ان خواص میں ایک جنرل پاشا بھی تھا جو مسلسل امریکی سفیر منتر کو ٹیکسٹ کر رہا تھا اور لمحے لمحے کی خبر دے رہا تھا۔
“اچانک ایک آدمی عدالت میں داخل ہوا۔ مکمل سناٹا چھا گیا۔ اگر اس دوراں کسی کو فون کال آ جاتی تو وہ چپکے سے باہر نکل جاتا مگر عدالت کے اندر ایک لفظ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ہاں اگر اس سناٹے میں کسی چیز کی آواز تھی تو وہ پھنکے کی آواز تھی۔
“قونصل خانے سے تعلق رکھنے والی کارمیلا اور پال میرے سامنے بیٹھے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ جھک کر پوچھا “یہ شخص کون ہے؟”
“یہ؟ یہ آئی ایس آئی کا بندہ ہے۔”
“یہ یہاں کیوں آیا ہے؟” میں نے پوچھا۔
انہوں نے کہا:
He is a fixer.
“کیا مطلب؟”
“دیکھئے۔ اس کا آنا یا تو بہت نیک شگوں ہے اور یا بہت ہی بد شگون۔”
“چلیں۔ پہلی والی بات کے لئے پر امید رہتے ہیں۔” میں یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔
ریمنڈ ڈیوس پرانی انار کلی پولیس اسٹیشن سے ہوتا ہوا کوٹ لکھپت جیل پہنچا۔ ان کو 14 روزہ ریمانڈ ہوئی۔ سوالات ہوتے رہے۔ وہ مسلسل انکاری رہا۔ ان کے پاس دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ میں نے قتل اپنے دفاع میں کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے مارتے، میں نے انہیں مار دیا۔ یہاں صرف پہل کی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ پاکستانی حکومت یا دنیا کی کوئی بھی حکومت میرا ٹرائل قانونی طور پر نہیں کر سکتی۔ یہ اختیار صرف امریکی عدالت کو حاصل ہے۔ ریمنڈ ڈیوس پاکستانی انویسٹیگیٹرز کو بہت ہی بے بس کر دیتا ہے۔ وہ انہیں اپنے مشن، کام، قتل، کسی چیز کے بارے میں بھی معلومات نہیں دیتا۔ “ائی ایم سوری۔ نو کمنٹ” کہہ کر چپ ہو جاتا ہے۔ ان پر رتی برابر تشدد نہیں ہوا ۔ کوئی سزا نہیں ہوئی۔ (یہ الگ بات ہے کہ وہ چاول اور چکن کڑاھی سمیت ٹھنڈے پانی سے نہانے کو بھی سزا کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔) جیل میں ان کے سامان کو چیک کیا جاتا ہے تو ردعمل کے طور پر انہوں نے کھانا ترک کر دیتا ہے۔ تین دن تک کچھ نہیں کھاتا۔ جب وعدہ کیا گیا کہ گورے کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا، تب بھوک ہڑتال ختم کی۔ عید میلاد نبی کی تقریبات ہو رہی ہیں۔ لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے گورا سکون سے سو نہیں سکتا اور آرام نہیں کر پاتا۔جلد ہی قیدی کی فرمائش پر نکلوا دیا۔ اسی طرح جب یہ کوشش کی گئی کہ ان کا فنگر پرنٹ لیا جائے مگر انہوں انکار کر دیا۔ شلوار قمیص کےلئے کہا گیا تو انہوں نے وہ بھی نہیں پہنی۔ صرف ریمنڈ ڈیوس ہی نہیں، جب قونصل خانے کے افراد آتے ہیں تو وہ بھی ایسی ہی من مانیاں کرتے ہیں۔ جیل سپراٹنڈنٹ بھیگی بلی بن جاتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کتابیں پڑھتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر قونصل خانے والے آتے ہیں، ان سے ملتا ہے۔ پش اپس کرتا ہے اور سوتا رہتا ہے۔ مگر سخت اذیت کا شکار ہے۔ وہ ہر روز ایک بات پوچھتا ہےکہ سفارت خانہ کہاں تک آگے بڑھا اور ان کی رہائی کے لئے کیا کیا جا رہا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی: اس چمن کے نوا پیراؤں کی آزادی تو دیکھ
ریمنڈ ڈیوس پاکستان کے لئے بہت بڑا درد سر بن گیا تھا۔ امریکہ کا دباؤ تھا کہ اس کو جلد رہا کیا جائے۔ صدر اوبا نے تقریر کی۔ سینیٹر جوہن کیری پاکستان آیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کو ملنے والی امداد روکنے پر غور کیا جانے لگا ۔ دوسری طرف یہاں کیس میڈیا ٹرائل ہو چکا تھا۔ یہ ٹالک شوز، کالمز، اور سیاسی پارٹیوں کا اہم ترین موضوع تھا۔ جماعت اسلامی سمیت دوسری پارٹیاں اور عوام ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایسے میں حکومت کے لیے انہیں چلتا کر دینا آسان نہ تھا۔
سیاسی بازی گر آصف علی زرداری نے اس کیس میں بھی بڑی مصلحت اور مفاہمت سے کام لیا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور فوجی بھائیوں کو آگے کر دیا تھا۔ اور خود انجانے بن گئے۔ اسی دوراں جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر امریکہ اور پاکستانی دونوں حکومتوں کی طرف سے دباؤ بڑھنے لگا کہ ریمنڈ ڈیوس کو کوئی محفوظ راستہ دیا جائے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ حالانکہ شاہ محمود قریشی کا بیٹا سینیٹر جوہن کیری کے آفس میں کام کرتا تھا اور ان دونوں کا بہت ہی قریبی تعلق تھا۔ کچھ دن بعد جب ریمنڈ ڈیوس کو ڈپلومیٹک استثنٰی دینے کے لئے مزید پریشر ڈالا گیا تو انہوں نے وزارت سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ ریمنڈ قونصل خانے کےلئے کام کر رہا تھا نہ کہ سفارت خانے کےلئے۔ اس لئے انہیں استثنٰی نہیں مل سکتا۔ ریمنڈ ڈیوس کےمعاملے میں اگر کوئی ہیرو بن کے سامنے آتا ہے جس نے اسٹینڈ لیا، تو وہ شاہ محمود قریشی ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کے مطابق ان کی رہائی کے لئے جو خفیہ طور پر گہرے پانیوں میں کام کر رہے تھے ان دو شخصیات میں سی آئی اے کا ڈائرکٹر لیون پینیٹا اور آئی ایس آئی کا ڈائرکٹر جنرل احمد شجاع پاشا سرفہرست تھے۔ آج رہائی سے کئ ہفتے پہلے بقول ان کے پوری ترتیب اور منصوبہ بن گیا تھا۔ یہ منصوبہ کب بنا تھا؟ اس بارے میں دو کہانیاں ہیں۔ یا تو اس وقت سارا معاملہ طے پا گیا تھا جب پاکستانی مندوب حسین حقانی اور جوہن کیری پاکستان کے دورے پر آئے یا پھر جنرل منتر اور جنرل شجاع پاشا نے خفیہ طور پر پورا لائحہ عمل تشکیل دیا۔ ان کے بقول اگر میری رہائی میں فوج کا اہم کردار تھا تو زرداری اور نواز شریف کا بھی اسی طرح ہاتھ تھا۔ ان سب کا فوکس تھا کہ کسی طرح ڈپلومیٹک بحران کا شکار ہوئے بغیر اس معاملے کو رفع دفع کیا جائے اور کچھ ایسا ہوجائے کہ حزیمت بھی اٹھانی نہ پڑےاور میں بھی رہا ہوجاؤں۔
جب لائحہ عمل طے ہو گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے نکالنا ہے، تب سوال یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟ بقول مصنف کے، یہ کام آئی ایس آئی نے کیا۔ معاملے کو حتمی صورت دینے کے لئے جنرل پاشا پیش پیش رہے۔ انہیں 18 مارچ کو رٹائر ہونا تھا مگر یہاں حالات کی سنگینی ایسی تھی کہ وہ ایک سال اور قیام کر گیا۔ انہوں نے ہی سرکاری وکیل منظور بٹ کو تبدیل کیا کیوں کہ وہ جماعت اسلامی کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور کیس کو خراب کر رہے تھے۔
شرعی عدالت کا انوکھا فیصلہ یا تاویل کا پھندہ؟
آج ایک دن میں ایک گورے کے لیے دو عدالتیں لگی ہیں۔ ایک میں خلاف فیصلہ آیا۔ لمحہ بھر ضائع کیے بغیر کیس شرعی عدالت چلا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں:
“‘منصوبہ تبدیل ہو چکا ہے۔ جج نے کیس شرعی عدالت کو ریفر کر دی۔’
“جب پال نے یہ کہا تو میں سکتے میں آگیا۔ شریعت اور شرعی قوانین کا سن کر میرے ذہن میں جو چیزیں آئیں، وہ یہ تھیں: سنگسار، کوڑے مارنا، ہاتھ کاٹنا، سر قلم کرنا، آنکھ کے بدلے آنکھ۔ سچی بات ہے۔ میں غصے میں تھا مگر مجھ پر خوف طاری ہو گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ کیا بکواس کر رہے ہو؟ شرعی عدالت؟ آپ سنجید ہیں؟
میں نے کارمیلا سے پوچھا “یہ کیا ہو رہا ہے میڈم؟”
انہوں نے کہا: ” کیس شرعیہ قانون کے حوالے کر دیا گیا ہے۔”
“مجھے یقین نہیں آ رہا جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں۔ مجھے مار دیا جائے گا؟ کیا یہ سچ ہے؟”
“نہیں۔ رے۔ شرعی قوانین میں قصاص ہی نہیں، دیت بھی ہے جہاں متاثرین کے ورثاء خون بہا لے کر قاتل کو معاف کر دیتے ہیں۔”
ریمنڈ ڈیویس کے مطابق جتنا بن پڑا آئی ایس آئی نے متاثرین کے خاندانوں پر دیت قبول کرنے لئے دباؤ ڈالا۔ 3 مقتولین کے کل 18 ورثاء تھے اور ہر ایک سے بات منوانی بہت ہی مشکل تھی۔ مقتول محمد فہیم کا بھائی کسی طور دیت لے کر خون معاف کرنے پر تیار نہ تھا۔ دوسرا شخص جو دیت قبول نہیں کر رہا تھا، اس کا بھائی ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے آنے والی کار سے ٹکرا کر جان بحق ہو گیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کے مطابق 16 مارچ کی رات آئی ایس آئی نے ورثاء کو کوٹ لکھپت جیل بلایا اور ترغیب دی کہ دیعت قبول کر لیں۔ اگر وہ قبول کر لیں گے تو ان کو بہت بڑی رقم ملے گی۔ اگر قبول نہیں کرتے تو۔۔۔۔۔۔ اس کے انجام کی بھی ایک جھلک صبح دکھا دی گئی تھی۔
مقدمہ شرعی عدالت میں چل رہا ہے۔ ورثا، مجرم، “ثالثی” اور قاضی سب موجود ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں:
“شرعیہ کورٹ کے جج نے حکم دیا کہ 18 ورثا کو پیش کیا جائے۔ یہ لوگ کب سے باہر گھوم رہے تھے۔ وہ ایک ایک کرکے لڑکھڑاتے داخل ہونے لگے۔ ایک پولیس درمیاں میں کھڑا تھا۔ میں ان کو واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مجھے اس سارے پراسس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ میں نے کارمیلا کی طرف دیکھا۔ مگر وہ اپنے ہونٹ چبا رہی تھی اور بڑی اضطرابی کیفیت میں تھی۔ میں نے پوچھا کارمیلا تمھیں یہ کیا ہوگیا؟
“ان 18 افراد میں سے ہر ایک نے ڈیل قبول کرنی ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی انکار کر دے تو ساری خواری رائگان جائے گی۔” کارمیلا نے ایک گہری نظر متاثرہ خاندان پر ڈال کر کہا:
“اور یہ خواتین کسی طرح بھی خوش دکھائی نہیں دے رہیں۔”
“متاثرین کے نئے وکیل ارشاد نے جج کو ایک دستخط شدہ فائل تھمائی اور یہ دکھایا کہ سارے ورثاء دیت قبول کرنے اور مجھے معاف کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ جج نے ہر ایک کو ایک ایک رسید دی جہاں دیت کی رقم لکھی ہوئی تھی۔ ان رسیدوں میں پاکستان کی تاریخ میں دیت کے طور پر دی جانے والی سب سے بڑی رقم درج تھی۔ ہر ایک وارث کے لیے 130000 ڈالرز اور کل 2340000 ڈالرز تھے۔ (پاکستانی روپوں میں کروڑ کے قریب ایک خاندان کو ملے۔)
انہوں نے اس پر دستخط کئے اور جج نے آخر میں پوچھا: “کسی پر کوئی زبردستی تو نہیں؟” سب نے یک زبان ہو کر کہا “نہیں”
جج نے وکیل استغاثہ اور ورثا سے کہا کہ کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ دوبارہ سر نفی میں ہلایا گیا۔
کارمیل نے مجھ سے کہا کہ ان سب نے دیت قبول کر لی ہے۔ اب آپ رہا ہو جائیں گے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ “واقع؟ کب؟”
“جیسے ہی ہم یہاں سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ ڈیل گاڑی لئے باہر انتظار کر رہا ہے اور ائرپورٹ پر فلائٹ تیار ہے۔ آج آپ کو روانہ کر دیا جائے گا۔”
“ایک منٹ۔ کیا میں جا رہا ہوں؟ آج؟”
“ہاں ریمنڈ۔ آپ جا رہے ہیں اپنے گھر۔ آپ آزاد ہیں۔”
میں اپنے جذبات پر قابو پانے کا عادی ہوں۔ مگر اب مجھے میرے احساسات پہ قابو نہ تھا۔ اور پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔”
یہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور رہائی تک کی کہانی ہے۔ مگر ان کی زندگی کی کہانی بقول ان کے اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ ان کو لوگ “لاہور واقعہ” کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ اور دنیا نے اس کو ایک جاسوس سمجھا ہے۔ اسے ایک قاتل کے روپ میں دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے اپنے دفاع میں دو آدمیوں کو قتل کیا تھا جو بقول ان کے، بالکل جائز تھا۔ امریکی عوام اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کا بے گناہ شہریوں کو مارنا جرم تھا اور سزا ملنی چاہئے تھی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی اتنی بڑی رقم کس کھاتے میں گئی؟
واقعہ کے 2 سال بعد ان کی بیوی طلاق لے کر چلی گئیں۔ وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔ جس کام میں انہیں مہارت تھی اور جس دشت کی سیاہی میں زندگی بیتی تھی، وہ شمشیر زنی تھی مگر اب نوکری چلی گئی ہے اور دنیا بھر میں نوکری نہیں مل رہی۔ اس کے علاوہ انہیں کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔
یہ ہے ریمنڈ ڈیوس کی وہ عجیب ڈرامائی کہانی۔ ایک جاسوس کی روداد۔